BSEC SHALL ZONE

BSEC SHALL ZONE

BALOCH STUDENTS EDUCATIONÀL COMMITTEE

test

Post Top Ad

picture slide

BSEC Slides

Previous Next

Sunday, September 5, 2021

شہری مراکز کی بلوچ سیاست کے موجد میر عبدالعزیز کرد اوریوسف عزیز مگسی

 سرمایہ دارانہ نظام قوم وملت کے لیئے ناسور کی حیثیت


 رکھتاہے. بلو چستان کے خانہ بدوش لوگوں کو سچیت مہیا کرنا چاہیے ۔ روٹی اور تعلیم کا بندوبست ہو، اور ان کی صحت کا انتظام ہو ۔ مستقبل کے بلوچ معاشرے کے بارے میں یہ خیالات بلوچ قوم کے بزرگ میر عبدالعزیز کرد اوریوسف عزیز مگسی کے تھے، جواس نے نصف صدی پہلے کہتے تھے ۔ انھی فقروں کی عصمت بچاتے بچاتے اوران دوفقروں کی ترویج کرتے کرتے بلوچوں کا یہ سفید ریش زندگی پتا گیا۔ وہ اور اس کے ساتھی انھی آ درشوں کے لیے مرمر کر جیتے رہے اور جی جی کر کام کرتے رہے ۔ اس کے بعد بھی بلوچ قوم کے اندر بے شمار بچے اور باشرف فلاسفر، دانش ور اور سیاست دان آۓ ۔ وہ سب بھی اپنے اپنے تجر بوں اوراپنے اپنے حالات میں سے گز رکر ای دو نقاطی منشور پر عوامی انقلابی اور خوداختیار سرکار!۔ بلوچ سیاسی تحریک میں میر عبدالعزیز کر د کی بڑی اہمیت ہے ۔ اس لیے کہ کر دصاحب وہ اولین شخص ہے جس نے قبائلی معاشرے کے اندر سے انجر آنے والے نومولودشہری مراکز کی اہمیت کو جاچ لیا تھا ۔اوراس طرح بلوچ تاریخ میں عبدالعز یز کر دوہ پہلاشخص ہے جس نے شہری مراکز کا انداز سیاست شروع کیا اور بلوچوں میں قرار داد و جلسہ کی جد و جہد متعارف ومروج کر دی ۔ پمفلٹ، پوسٹر ،اخبار،اور ہڑتال جیسی باتیں جو بلوچ سیاست میں بالکل نئی باتیں تھیں ۔ایسی حالت میں کہ پیر گھٹنوں گھٹنوں قبائلی ساج کے اندر پیوست تھے مگر بفکری و سیاسی ہل چل نیم قبائلی شہری مراکز میں ہوتی تھی ۔ اس لیے میرا دعوی ہے کہ قبائلی طر ز مزاحمت کی روایتی فضا میں ایک نئے داؤ پیچ کی بنیاد میں ڈالنے والے میر عبدالعزیز کر دکا مقام بلوچ تاریخ میں بھی بھی مد ہم نہ ہو سکے گا۔ شہری سیاست کر نے کی ایک وجہ تو بلا شبہ اس کی سیاسی دوراندیشی تھی ۔ اور دوسری وجہ اس کا اپنا خاندانی ماحول بھی تھا۔ عزیز کر دشہری مراکز میں روٹی روز گار حاصل کر نے والے ایک خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ اس کا والد میر ٹلنز خان ریاست قلات کا ملازمت پیشخص تھا۔ عبدالعزیز 1907ء میں پیدا ہوا۔ اس کا آبائی علاقہ مستنگ تھا، جوخود ایک نیم شہری علاقہ تھا۔ وہ بلوچوں کے گر د قبیلے کے مدے زئی طائفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ قبیلہ بالعموم شہری مراکز کے اردگرد آباد تھا۔ اس طرح سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ایک ایسا پس منظر رکھنے والا سیاسی ورکر کس طرح کے میدان کوا پنی جد و جہد کا مرکز بناۓ گا۔  ۔ اور یہی وہ کم سے کم نکات ہیں جن سے آ ج بھی ہرایمان داراور نیک نیت انسان متفق ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ فقرے تو ہم نے یہاں پرڈ ہرادیے ہیں لیکن ذرا سوچئے تو کہ جو حکومت یہ کام کر پاۓ گی ، وہ کیسی ہوگی؟ ۔ بلوچستان میں روشن فکر ادب کی تنظیم کاری کی دھندلی دھند لی شروعات 1920 کے اواخر میں ہونے گی تھی ۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں میر عبدالعزیزاوریوسف عزیز مگسی جیسا عوام دوست ، سامراج دشمن اور نیک نیت لیڈ رعطا ہوا جو کہ خودشاعر، ادیب اور صحافی تھا، اور یوسف عزیز مگسی خوش قسمت کہ اس کو بہت اچھے دوست اور ہم کارمل گئے تھے۔خواہ’’انجمن اتحاد بلوچاں‘‘ ہو، آل انڈیا بلوچ کانفرنسوں کا انعقاد اور ان کی تاریخی اساس قرار دادیں ہوں ، ا ہوں ، اور یا’فریاد بلوچستان‘‘جیسے پمفلٹوں کی اشاعت ہو . لھکاری انگریز سے آ زادی ،  کے اندر فیوڈل بادشاہت ینی خانی نظام کے خاتمے اور مظلوم طبقات کی نجات کی تحریر میں لیے ایک دوسرے سے جڑ رہے تھے ۔ یہ سب کے سب بیک وقت سیاسی کارکن بھی تھے   اور سامراج دشمن بھی کبھی سیاست ادب پر حاوی ہوتی تھی اور بھی ادب سیاست پہ۔ باہم جو کر انہی لوگوں نے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی بھی بنائی ‘‘امن ڈلن‘‘ بھی اور بلوچی زبان واد بہ تحر یک‘‘ بھی ۔ کارواں پلتا رہا۔ موت ، شنا سا چہروں کو معد وم کر تی رہی ۔ نئے متبادل چیروں کی آمد ہوتی رہی ، کارواں نے لیڈروں سے شناسائی کرتا گیا ۔ اس وقت سے لے کر آج تک خیر و نیکی کے پر چارک لوگوں کی تنظیم کا پر چم بھی بے ہاتھ نہ رہا ۔ سوچ اور تنظیم دونوں تھر تے سٹور تے ارتقا کر تے ار ہے ۔تنظیم عد دی اور فکری دونوں اعتبار سے پھلتی پھولتی رہی ۔

No comments:

Post a Comment